The Light of Faith” is a story about Ahmed, a young boy in a small village who selflessly serves his community by spreading the message of faith and unity. Despite facing ridicule from others, his unwavering trust in Allah inspires the villagers to come together and rebuild their mosque after a devastating storm. The story teaches the power of sincerity, unity, and faith in overcoming challenges.

روشنی کا دیا
ایک چھوٹے سے گاؤں “نور پور” میں، جہاں زندگی سادہ تھی، لوگ اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مگن رہتے تھے۔ کھیتوں میں کام، مال مویشیوں کی دیکھ بھال، اور رات کو جلدی سو جانا ان کا معمول تھا۔ مگر گاؤں کا ایک لڑکا احمد باقی سب سے مختلف تھا۔ احمد ایک یتیم بچہ تھا، جس کے والدین ایک حادثے میں انتقال کر گئے تھے۔ وہ اپنے دادا کے ساتھ رہتا تھا، جو بہت بوڑھے تھے۔
احمد کا دل مسجد سے جڑا ہوا تھا۔ وہ روزانہ مسجد جاتا، صفائی کرتا، اور شام کو قرآن پاک کی تلاوت کرتا۔ گاؤں میں اکثر لوگ نماز کے لیے مسجد نہیں آتے تھے، لیکن احمد ہر ممکن کوشش کرتا کہ انہیں نماز کے لیے بلائے۔ وہ روز فجر کی اذان کے بعد گاؤں کے ہر دروازے پر جا کر لوگوں کو جگانے کی کوشش کرتا۔
فہیم کا طنز
گاؤں میں ایک شخص، فہیم، جو زمیندار تھا، ہمیشہ احمد کا مذاق اڑاتا۔ فہیم کہتا، “احمد، تم اتنی محنت کرتے ہو، لیکن کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ نہ تمہیں اس کا صلہ ملے گا اور نہ کوئی تمہاری تعریف کرے گا۔ تم یہ وقت میرے کھیتوں میں کام کرنے میں لگاؤ تو اچھی کمائی ہوگی۔”
احمد مسکرا کر جواب دیتا، “چچا فہیم، میں یہ کام اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہوں۔ اگر لوگ نہ بھی آئیں، تو میں اپنا فرض نبھاتا رہوں گا۔ اللہ ہمارے اعمال کو دیکھتا ہے، اور صلہ دینا اسی کے ہاتھ میں ہے۔”
طوفان کی رات
ایک دن گاؤں کے آسمان پر کالے بادل چھا گئے، اور شام ہوتے ہی زور دار طوفان شروع ہو گیا۔ تیز ہوائیں چلنے لگیں، بجلی چمکنے لگی، اور بارش نے گاؤں کی گلیوں کو پانی سے بھر دیا۔ مسجد کا مینار گر گیا، اور کئی گھروں کی چھتیں اڑ گئیں۔ لوگ خوف سے اپنے گھروں میں چھپ گئے۔
احمد، جو ہمیشہ مسجد میں رہتا تھا، اپنی دادا کے ساتھ باہر آیا۔ اس نے دیکھا کہ لوگ گھبراہٹ میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بجائے اپنے گھروں میں بند ہیں۔ احمد نے ہمت جمع کی اور لوگوں کو ایک جگہ جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔
احمد کی ہمت
احمد نے بلند آواز میں کہا، “میرے بھائیو اور بہنو! یہ وقت ڈرنے کا نہیں بلکہ مل جل کر مشکل کا سامنا کرنے کا ہے۔ اللہ ہماری مدد کرے گا، لیکن ہمیں بھی ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔”
فہیم، جو احمد کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتا تھا، اس کی باتیں سن کر حیران رہ گیا۔ احمد نے لوگوں کو حوصلہ دیا اور کہا کہ سب کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ لوگوں نے پہلی بار احمد کے خلوص کو محسوس کیا اور اس کی بات مان لی۔
اتحاد کا مظاہرہ
اگلے دن، طوفان کے رکنے کے بعد، احمد نے گاؤں والوں کو مسجد کی تعمیر نو کے لیے دعوت دی۔ احمد نے کہا، “یہ مسجد ہمارے ایمان کا مرکز ہے، ہمیں اسے پہلے سے بہتر بنانا ہوگا۔”
لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مسجد کی تعمیر شروع کر دی۔ احمد دن رات کام کرتا رہا اور لوگوں کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ فہیم، جو پہلے احمد کا مذاق اڑایا کرتا تھا، بھی مسجد کی تعمیر میں شریک ہو گیا۔
اس نے احمد سے کہا، “بیٹا، تم نے ہمیں سکھایا کہ نیک عمل کے لیے کسی دنیاوی فائدے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ میں شرمندہ ہوں کہ میں نے تمہیں ہمیشہ کمزور سمجھا۔ آج تم نے ثابت کر دیا کہ ایک چھوٹے عمل سے بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔”
گاؤں کی تبدیلی
مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو گاؤں کا منظر ہی بدل گیا۔ لوگ جو پہلے اپنی ذات تک محدود تھے، اب ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے۔ نماز کے وقت مسجد بھری رہتی تھی، اور ہر فرد احمد کو دعائیں دیتا۔ احمد کی محنت نے لوگوں کو ایک سبق دیا کہ اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے اعمال کبھی ضائع نہیں جاتے۔
سبق
احمد کی کہانی نے یہ سبق دیا کہ انسان کا ایمان اور خلوص سب سے بڑی طاقت ہے۔ جب ہم اپنی نیت کو صاف رکھ کر نیک کام کرتے ہیں، تو اللہ ہمارے لیے راستے کھولتا ہے۔ مشکلات آئیں تو ہمیں ان سے گھبرانے کے بجائے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اتحاد اور اخلاص سے دنیا میں بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
اختتام