Explore the fascinating story of the Kafan Chor during the time of Hazrat Muhammad (S.A.W). This tale unveils the actions of a grave robber infamous for stealing the shrouds of the deceased and highlights the moral lessons and spiritual transformations that emerged from this incident. A must-read for those interested in the profound stories and teachings from Islamic history. Complete story is given below

حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے جا رہے تھے کہ راستے میں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو بےحد غمگین تھا اور رو رہا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے اس کے رونے کی وجہ پوچھی۔ اس شخص نے بتایا کہ اس سے ایک بہت بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ اللہ کے عذاب سے سخت خوفزدہ ہے اور سمجھ نہیں پا رہا کہ کیا کرے۔ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ وہ اس کی معافی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کریں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اس شخص کی حالت سے متاثر ہوکر اسے اپنے ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ خود بھی رونے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ راستے میں ایک شخص ملا جو اپنے گناہ کی وجہ سے بہت پریشان تھا، اس کی حالت دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے میرے پاس لاؤ۔
جب وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا تو ندامت سے اور زیادہ رونے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت سے پوچھا کہ تم کیوں رو رہے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ اس سے ایک بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے اور وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: “تم بتاؤ، تمہارا گناہ بڑا ہے یا اللہ کی رحمت؟” اس شخص نے ندامت سے جواب دیا کہ اس کا گناہ بڑا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے شرک کیا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا کہ کیا کسی انسان کا قتل کیا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔
پھر اس شخص نے لرزتے ہوئے بتایا کہ وہ کئی سالوں سے کفن چوری کرتا آیا ہے اور حال ہی میں ایک نوجوان لڑکی کا کفن چراتے وقت اس کے ساتھ بدکاری کی۔ اس نے کہا کہ اس عمل کے دوران اسے محسوس ہوا جیسے وہ لڑکی عذاب کی خبر دے رہی ہو۔
یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ وہ شخص یہ سن کر روتا ہوا وہاں سے جنگل کی طرف نکل گیا اور اللہ سے معافی مانگنے لگا۔ وہ کئی دنوں تک روتا اور عبادت کرتا رہا، دن رات اللہ سے توبہ کرتا رہا۔
کچھ دنوں کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سچی توبہ قبول کر لی ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو بھیجا کہ اسے یہ خوشخبری دے دیں کہ اس کی توبہ قبول ہو گئی ہے۔